تلنگانہ کی خبریں

دلسکھ نگر بم دھماکہ کیس: سپریم کورٹ نے مجرم اسد اللہ اختر کی سزائے موت پر حکم التواء جاری کیا

بینچ نے آٹھ ہفتوں میں 3 رپورٹس پیش کرنے کا حکم دیا

حیدرآباد، 26 ستمبر:(اردودنیا.اِن/ایجنسیز) سپریم کورٹ نے 2013ء کے دلسکھ نگر جڑواں بم دھماکوں میں مجرم قرار دیے گئے اسد اللہ اختر کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا ہے۔ اس ہولناک حملے میں 18 افراد ہلاک اور 131 زخمی ہوئے تھے۔

دلسکھ نگر بم دھماکے 21 فروری 2013ء کو حیدرآباد میں پیش آئے تھے اور شہر کی حالیہ تاریخ کے سب سے خوفناک دہشت گردانہ واقعات میں شمار کیے جاتے ہیں۔ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کے پیش کردہ شواہد کی بنیاد پر خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2016ء کو اختر کو سزائے موت سنائی تھی۔ اس فیصلے کو 8 اپریل 2025ء کو تلنگانہ ہائیکورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔

سپریم کورٹ کی سماعت

اختر نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے 20 ستمبر کو سپریم کورٹ میں اسپیشل لیو پٹیشن (ایس ایل پی) دائر کی تھی۔ جسٹس وکرم ناتھ، جسٹس سندیپ مہتا اور جسٹس این وی انجاریا پر مشتمل تین رکنی بنچ نے 25 ستمبر کو سماعت کی۔

اختر کے وکیل سیما مشرا نے عدالت کو بتایا کہ ان کا موکل دہلی کی منڈولی جیل میں قید ہے اور درخواست کی کہ عدالتی احکامات سے جیل حکام کو آگاہ کیا جائے۔ انہوں نے ایس ایل پی دائر کرنے میں 75 دن کی تاخیر پر معافی بھی مانگی، جسے عدالت نے قبول کرلیا۔

سپریم کورٹ کے احکام

بینچ نے سزائے موت پر عمل روکنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ:

  • ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ دونوں سے اصل ریکارڈ طلب کیا جائے۔

  • ان ریکارڈز کی ترجمہ شدہ کاپیاں تمام متعلقہ وکلاء کو فراہم کی جائیں۔

  • جیل میں مجرم کے طرزِ عمل اور ذہنی حالت کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔

3 رپورٹس کی تیاری

عدالت نے آٹھ ہفتوں کے اندر درج ذیل رپورٹس پیش کرنے کا حکم دیا:

  1. پروبیشن آفیسر کی رپورٹ – قیدی کے رویے اور کردار کے حوالے سے۔

  2. جیل سپرنٹنڈنٹ کی رپورٹ – جیل کے اندر سرگرمیوں اور طرزِ عمل پر مبنی۔

  3. ذہنی صحت کی رپورٹ – ماہرین کی جانب سے قیدی کی نفسیاتی حالت کا تجزیہ۔

سپریم کورٹ نے اپنی رجسٹری کو ہدایت دی کہ یہ تمام احکامات دہلی حکومت کے اسٹینڈنگ کونسل کو فوری طور پر بھیجے جائیں تاکہ جیل حکام ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ کیس کی اگلی سماعت 12 ہفتوں بعد مقرر کی گئی ہے۔ اس وقت تک تمام رپورٹس اور ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کرنا لازمی ہوگا۔

عدالت نے اختر کی قانونی ٹیم کو یہ بھی ہدایت دی کہ وہ دو ہفتوں میں دائر پٹیشن میں موجود خامیوں کو دور کرے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button